جو میں نے دیکھا‘ سنا اور سوچا
بچیوں کے عریاں لباس کے بھیانک انجام
پچھلے دنوں ایک کیس آیا ماں باپ بلک بلک کر رو رہے تھے اور بار بار کہہ رہے تھے کہ ہمارے گھر پر اور ہماری بچی پر کسی نے جادو کردیا۔ ساتھ ہی ایک سولہ سال کی بچی جو کہ فرسٹ ایئر کی طالبہ تھی‘ بیٹھی تھی۔ والدین کا شکوہ یہ تھا کہ دن رات ویڈیو‘ کیبل‘ موبائل‘ میسج‘ باہر کے کھانے‘ پاکی ناپاکی کا کوئی احساس نہیں‘ ہروقت غصہ‘ چڑچڑاپن‘ اپنی زندگی سے بیزار‘ گھر والوں کی زندگی سے بیزار‘نہ اپنا احساس نہ گھر والوں کا احساس‘ کام ہوا یا نہیں ہوا ‘ماں مرگئی یا زندہ ہے؟ اس کوکسی کی کوئی پرواہ نہیں‘ بس ایک ہی رٹ ہے اور زندگی کا ایک ہی قول ہے کہ میں نے ہر چیز امپورٹڈ یعنی باہر کے ملک کی استعمال کرنی ہے‘ ہر دیسی چیز مضرصحت اور ناقص ہوتی ہے اور دونمبر ہوتی ہے۔ میں نے بیرون ملک جاکر پڑھنا ہے‘ یہ قابل نفرت معاشرہ ہے‘ یہاں کے لوگوں کو اٹھنے بیٹھنے اورزندگی کا کوئی سلیقہ نہیں ہے‘ ماں باپ پر اعتراض‘ گھر پر اعتراض‘ معاشرے پر اعتراض‘ رشتے داروں سےملنا نہیں‘ تنہائی اور تنہائی کا ساتھی کیبل‘ موبائل‘ میسج‘ نیٹ اور بس۔۔۔۔۔!!! یہ شکوہ تھا والدین کا اور زارو قطار رونا تھا ۔میں ٹشوپر ٹشو دئیے جارہا تھا۔ ماں بار بار ایک چیز کا اصرار کررہی تھی کہ ہمارے گھر پر اور خاص طور پر بیٹی پرکسی نے جادو کردیا ہے اور اس جادو سے ہم تھک گئے ہیں۔۔۔!!! بیٹی ہے جو ہماری بات کا اثر نہیں لیتی‘ سارا گھر اس بیٹی کی وجہ سے پریشان ہے‘نامعلوم کیسے کیسے شرمناک میسج اس کوآتے ہیں اور یہ خودکرتی رہتی ہے۔ نہ دوپٹے کا خیال‘ نہ پردے کا خیال حتیٰ کہ حجاب دوپٹہ کا خیال تو دور کی بات ہے‘ اپنا جسم تک ڈھانپنے کا بھی اس کو خیال نہیں۔ حتیٰ کہ ایک دفعہ خود ہی کہنے لگی کہ میں اپنے کالج میں تھی تو ہمارا ٹرپ ایک پہاڑی علاقے میں گیا وہاں گورے اور گوریاں باہر سے سیرو تفریح کرنے آئے ہوئے تھے‘ ایک گوری نے بڑھ کر مجھے اپنے انگریزی کے مخصوص لہجے میں کہا:’’ اورکچھ نہیں تو اپنی قمیص کا گلا کچھ چھوٹا کردو۔۔۔! اس عمر میں تمہیں اپنا جسم ڈھانپنا بہت ضروری ہے ورنہ تمہیں کوئی نقصان پہنچائے گا۔ ‘‘یہ بات بیٹی ہنس ہنس کر کہہ رہی تھی۔ قارئین!میں اپنے بچوں کے ساتھ لاہورکے ریس کورس پارک میں گیا ہوا تھا‘ میرے قریب کے پلاٹ میںایک بچی غالباً تین ساڑھے تین سال کی ہوگی‘ ڈانس کررہی تھی اور بہت انوکھی حرکتیںکررہی تھی۔ دونوں والدین بیٹھے تالیاں بجا رہے تھے اور خوش ہورہے تھے کہ ان کی بیٹی ترقی کرگئی ہے۔ پہلے والدین اپنی اولاد کو بے لگام چھوڑتے ہیں اور ترقی کے مغالطہ میں انہیں ہر چیز کی کھلی اجازت دیتے ہیں پھر جب وہ لوگ اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں تو پھر ہر عادت اور ہر کردار کا عکس جادو پر ڈال دیتے ہیں۔ میں جادو کو مانتا ہوں‘ جادو سے انکار نہیں کرتا‘ جادو کی حقیقت کا قائل ہوں۔لیکن یہ بھی خبر ہے کہ سب کچھ جادو نہیں ہوتا‘کچھ زندگی کی اور حقیقتیں ایسی ہیں جو جادو سے ہٹ کر ہیں‘ ہمیں وہ بھی تسلیم کرنا پڑیں گی اگر وہ تسلیم نہ کیا تو پھر الزام تراشی کی نفسیات ہمیشہ سدا بہار رہے گی اور زندگی یونہی مشکلات و مسائل اور پریشانیوں میں ڈھلتی چلی جائے گی۔براہ کرم! اپنی نسلوں کو پھولدار پودوں کی طرح سنواریں‘ نشوونما کریں‘ ان کی تراش خراش کریں‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ نسلیں کانٹے دار جھاڑیوں کی طرح بڑھتی چلی جائیں اور زندگی میں تلخیاں نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں